۱۰ دسمبر ۲۰۲۰: سرینگر/ انسانی حقوق کا عالمی دن کے روز مقبوضہ جموںوکشمیر کے جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد کے سری گفوارہ علاقے میں جمعرات کے روز تین صحافیوں کو بھارتی پولیس فورسز نے زدکوب اور پٹائی کے بعد قریب ڈیڑھ گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔ بھارتی فوجیوںنے ضلع اسلام آباد کے علاقے سری گفوارہ میں نام نہاد ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ انتخابات کے پانچویں مرحلے کے دوران تین کشمیری صحافیوں فیاض احمد ، مدثر قادری اور جنید احمد کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ صحافیوں نے کہا ہے کہ فوجیوںنے ان کے کیمرے اور دیگر آلات قبضے میں لے لئے ۔ جنید کو علاج معالجے کیلئے مقامی ہسپتال میں منتقل کیاگیا ہے یہ صحافی وہاں ڈی ڈی سی نام نہاد انتخابات کے پانچویں مرحلے کی پولنگ کی عکس بندی کے لئے گئے تھے
۔دریں اثنا کشمیر پریس کلب نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔جن صحافیوں کو پولیس نے مبینہ طور پٹائی کے بعد قریب ایک گھنٹے تک بند رکھا ان میں نیوز 18 کے مدثر قادری، 9 ٹی وی کے جنید رفیق اور ای ٹی وی بھارت کے فیاض شامل ہیں۔مدثر قاری نے واقعے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا: ‘ہم اسلام آباد کے سری گفوارہ علاقے میں قائم پولنگ بوتھ پر ڈی ڈی سی انتخابات کی پولنگ کو کور کرنے کے لئے گئے تھے اور وہاں جو رائے دہندگان قطار میں کھڑے تھے انہوں نے کہ ہے کہ ہم صبح کے ساتھ بجے سے یہاں کھڑے ہیں لیکن یہاں پولنگ صبح کے ساڑھے ا?ٹھ بجے شروع ہوئی’۔انہوں نے بتایا کہ جب ہم نے وہاں موجود پولیس افسر سے اس تاخیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بھارتی ہندواتا ذہن کے ایس ایس پی سندیپ چودھری آرہے ہیں ان سے معلوم کریں۔موصوف صحافی نے کہا: ‘لیکن موصوف ایس ایس پی نے ہمیں سوال کا جواب دینے کے بجائے تھپڑ رسید کیے اور پولیس گاڑی میں بٹھا کر پولیس اسٹیشن سری گفوارہ پہنچایا جہاں ہمیں قریب ڈیڑھ گھنٹے تک بند رکھا گیا’۔انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک صحافی کو سانس لینے کی تکیلف بھی ہوئی جس کو ہسپتال لے جایا گیا۔دریں اثنا کشمیر پریس کلب نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔کلب کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ فیاض کی طرف سے انہیں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کو دو دیگر ساتھیوں سمیت سری گفوارہ میں پولیس نے پولنگ کی عکس بندی کے دوران پیٹا اور انہیں حراست میں بھی لیا گیا۔بیان میں فیاض کے حوالے سے کہا گیا کہ جنید رفیق کو چوٹیں بھی لگی ہیں اور وہ ہسپتال میں ہیں۔کلب نے متعلقہ حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ وادی کشمیر میں صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لئے موثر ماحول کے قیام کو یقینی بنائیں۔
صحافیوں کو پولیس نے پٹائی کے بعد قریب ایک گھنٹے تک بند رکھا ،ان میں نیوز 18 کے مدثر قادری، 9 ٹی وی کے جنید رفیق اور ای ٹی وی بھارت کے فیاض شامل ہیں۔ ان صحافیوںنے واقعے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہاکہ ایس ایس پی نے پولیس گاڑی میں بٹھا کر پولیس اسٹیشن سری گفوارہ پہنچایا جہاں ہمیں قریب ڈیڑھ گھنٹے تک بند رکھا گیا“۔ان صحافیوں میں ای ٹی وی کے ساتھ کام کرنے والے فیاض لولو نے مدثر قادری (نیوز 18 اردو کے اسٹرنگر) اور جنید رفیق (ٹی وی 9) شامل ہیں۔
نہامہ کولگام میں ایک گرنیڈ پھٹ گیا۔ گرنیڈ کے اس دھماکہ میں کسی کے زخمی ہونے کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ادھر سوپور میں پولیس اہلکار اپنی ہی سروس رائفل سے گولی چلنے کے نتیجے میں زخمی ہوا
نہامہ کولگام میں 18بٹالین بھارتی سی آر پی ایف کیمپ کے نزدیک ایک گرنیڈ دھماکہ ہونے کے بعد بھارتی فورسز نے آس پاس علاقوں کو محاصرے میں لے کر حملہ بڑے پیمانے پر تلاش شروع کی ہے۔ پولیس ذرائع نے دھماکہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گرنیڈ حملے میں کسی کے زخمی ہونے کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ ادھر شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور میں جمعرات کی صبح ایک پولیس اہلکار اپنی ہی سروس رائفل سے اچانک نکلنے والی گولی سے زخمی ہوگیا۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ قصبہ سوپور کے تجر شریف علاقے میں آج صبح دوران ڈیوٹی ایک پولیس اہلکار کی بندوق سے اچانک گولی نکلی جس سے وہ زخمی ہوگیا۔زخمی پولیس اہلکار کی شناخت محمد اشرف کے بطور ہوئی ہے اور گولی ان کے پیر کو لگی ہے۔
بھارتی پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ انہوں نے جنوبی ضلع پلوامہ کے ترال علاقے میں ایک نوجوان کو گرفتار کرلیا ہے۔اس نوجوان کو پولیس نے ترال پائین میں گرفتار کیا
دھر حکام نے جمعرات کو کہا کہ جموں کشمیر پولیس نے وسطی ضلع بڈگام میں طارق احمد بٹ کو گرفتار کیا ہے
مقبوضہ وادی کشمیر میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو اس وقت سنسنی پھیل گئی جب زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ریکٹر سکیل پرزلزلے کی شدت 3.7ریکارڈ کی گئی تاہم کسی جا نی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔/ وادی کے مختلف علاقوں میں دوران شب زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے کے ساتھ ہی لوگ گھرو ں سے باہر آئے، زلزلے کے جھٹکے کچھ منٹوں تک محسوس کئے گئے جس دوران لوگوں نے خالق کائنات سے رجوع کیا۔ادھر محکمہ موسمیات کے مطابق ریکٹر سکیل پر 3.7ریکارڈ کی گئی اور اس کا مرکز ہند کش پہاڑی بتائی جاتی ہے۔ادھر انتظامیہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ زلزلے سے کی بھی جگہ کئی جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع ہے۔
جمعرات کو عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پربنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف خواتیں نے احتجاج درج کیا۔احتجاجی خواتین کارکن نے میڈیا کو بتایا کہ ہم عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیر کے لوگوں کا خون چوس رہی ہے اور ہماری زمینوں اور جائیداد کو فوجی طاقت اور زبردستی سے ہڑپ کیا جا رہا ہے۔۔انہوں نے کہا کہ بھارت مودی حکومت کے ظلم نے کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بن کے رہ گئی ہیں کیو نکہ انہیں کوئی بھی سہولیت دستیاب نہیں ہے۔ اور کشمیریوں کو انکا بنیادی حق خودارادیت دیا جائے بھارت کے جابرانہ قبضہ میں کشمیریوں کا قتل عام کیا جارہا ہے
بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی دھجیاں بکھیر رہا ہے
جنوری 1989 سے اب تک 95ہزار 7سو28 کشمیریوں کو شہیدکیاگیا، رپورٹ
سرینگر10دسمبر(کے ایم ایس)آج جب انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ، جموںوکشمیر پر بھارت کاغاصبانہ قبضہ بدستور جاری ہے۔انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر آج کشمیرمیڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 10دسمبر 1948کا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ واقعی ایک سنگ میل تھا لیکن کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں شامل تیس بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو میسر نہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض بھارتی فورسز گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی خلاف ورزی اور حق خود اردیت کے مطالبے کی پاداش میں بے گناہ کشمیریوںکو بلا لحاظ عمر و جنس قتل اورگرفتار کر رہی ہیں ،انہیں تشدداور تذلیل کا نشانہ بناتی ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بھارتی فوجیوںنے جنوری 1989سے اب تک اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے دوران 95ہزار7سو28بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے جن میں سے 7ہزار1سو55کو دوران حراست شہیدکیا گیا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ان شہادتوں کے نتیجے میں 22ہزار9سو 24خواتین بیوہ جبکہ ایک لاکھ 7ہزار8سو 11بچے یتیم ہوگئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 11ہزار2سو 31خواتین کی بے حرمتی کی جبکہ 1 لاکھ10ہزار3سو75رہائشی مکانات اور دیگر املاک کو تباہ کیا۔رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے 8ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست کے دوران لاپتہ کیا۔رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوںکی طرف سے پیلٹ گنز کی فائرنگ سے سکولوںکے ہزاروںطلباءو طالبات زخمی ہوئے ہیں جبکہ 19ماہ کی حبہ جان، 10سالہ آصف احمد شیخ ، 16سالہ عاقب ظہور ،17سالہ الفت حمید ،17سالہ بلال احمد بٹ، انشا مشتاق ،19سالہ طارق احمد گوجری اور19سالہ فیضان اشرف تانترے سمیت درجنوں افراد بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس پانچ اگست کو مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور فوجی محاصرہ مسلط کرنے کے بعد سے 7خواتین سمیت 295کشمیریوں کو شہید کیا گیا جن میں سے 27کو جعلی مقابلوں یازیر حراست شہید کیا گیا۔فوجیوں نے اس عرصے کے دوران گھروں میں گھس کر 94خواتین کی بے حرمتی کی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض انتظامیہ نے گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد کشمیریوں کو سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت دیگر مساجد ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں میں کئی ماہ تک جمعہ کی نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہا کہ انتظامیہ نے محرم الحرام ، عیدمیلاد النبی ﷺکے موقوں پر مذہبی اجتماعات کے انعقاد کی بھی اجازت نہیں دی۔ کے ایم ایس رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں مسلسل فوجی محاصرے اور فورجی انٹرنیٹ پر پابندی کے سبب مقبوضہ علاقے میں نظام زندگی بری طرح مفلوج رہا اور معیشت کو بری طرح نقصا ن پہنچا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ محمد یاسین ملک ، محمد اشرف صحرائی،شبیر احمد شاہ،مسرت عالم بٹ، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، الطاف احمد شاہ، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ ، راجہ معراج الدین کلوال ، شاہد الاسلام ، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، غلام محمد بٹ اور تاجر ظہور احمد وٹالی جعلی مقدمات میں نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں مسلسل نظر بند ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض ، ایڈووکیٹ زاہد علی، محمد یوسف میر، محمد یوسف فلاحی، ظہور احمد، محمد رفیق گنائی ، ظہور احمد بٹ، میر حفیظ اللہ ، فاروق احمد توحیدی ، حیات احمد بٹ ، صحافی آصف سلطان، صحافی قاضی شبلی اور دیگر کئی حریت ررہنماﺅں اور کارکنوں سمیت ہزاروں کشمیری کالے قانون ”پبلک سیفٹی ایکٹ “ کے تحت مقبوضہ علاقے اور بھارتی جیلوںمیں بند ہیں۔کے ایم ایس رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض انتظامیہ نے بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی اور حریت فورم کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کو ایک عرصے سے گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے اور انہیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا رہی حتی ٰ کہ انہیں جمعہ کی نما ز بھی ادا نہیں کرنے دی جا رہی اور نہ ہی عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری آگے آکے مقبوضہ علاقے میں ریاستی دہشت گردی کے خاتمے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کیلئے بھارت پر دباﺅ ڈالے ۔
دریں اثنا حریت رہنماﺅں نے اپنے بیانات میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا جائزہ لینے کیلئے اپنی ٹیمیں علاقے میں بھیجیں