کشمےر: کپوارہ کے لاپتہ شہری کی بہنیں 23برسوں سے واپسی کی منتظر

   سرینگر،18 جولائی 2015:کشمےر کے ضلع کپواڑہ مےں عیدا لفطررکے موقعہ پرلاپتہ نوجوان کی بہنیں پھراشکبارہیں جبکہ20سال تک فرزندکاانتظارکرنے کے بعدباپ داعی اجل کولبیک کہہ گیااوربڑے بھائی کے انتظارمیںچھوٹابھائی اپنے ہوش و حواس کھوبیٹھا۔کے این ایس کے مطابق باترگام کپوارہ کے محمدجمال بٹ کانوجوان بیٹاغلام حسن سال1992میں لاپتہ ہوگیااور آج تک اسکاکوئی اتہ پتہ نہیں چل سکاجبکہ ایک محکمانہ رپورٹ میںیہ کہا گیا ہے کہ ممکنہ طورغلام حسن کوہلاک کیاگیاہے۔اپنے لخت جگرکی تلاش میں لاچارمحمدجمال نے سبھی دروازے کھٹکھٹائے ،کبھی بھارتی فوجی کیمپ ،کبھی پولیس تھانہ توکبھی دیگرکیمپوں کی خاک چھان ماری لیکن اپنے لاپتہ بیٹے کاکوئی سراغ نہ مل سکا۔23سال پہلے کی بات ہے کہ نوجوان غلام حسن اپنے آبائی گاوں باترگام کپوارہ میں قائم ایک فیکٹری میں مزدوری کرکے اپنے غریب باپ کی مالی مددکیاکرتاتھاکہ اچانک یہ نوجوان لاپتہ ہوگیا۔گھروالوں نے جگہ جگہ ناکام تلاش کرنے کے بعدپولیس تھانہ میں اسکی گمشدگی کے بارے میں رپورٹ درج کرادی۔پولیس نے اپنی طرف سے غلام حسن کاسراغ لگانے کی کوشش کی لیکن اسکے بارے میں پولیس کوکوئی سراغ نہ مل سکا۔ادھرمحمدجمال نے اپنے بیٹے کاپتہ لگانے کیلئے عدالت اور حقوق انسانی کمیشن سے رجوع کیا۔محمدجمال بٹ نے سال 1992سے2012تک اپنے بیٹے کی تلاش جاری رکھی لیکن وہ اس حسرت کیساتھ اسی سال اس دنیاسے رخصت ہوگیا۔پہلے بھائی غلام حسن کی گمشدگی اورپھرباپ محمدجمال کی موت نے اس غریب کنبہ کی حالت ہی بگاڑ دی۔23سال پہلے لاپتہ ہوئے غلام حسن کی بہنوں نے بتایاکہ آج پھرعیدہے اورآج پھرا±نھیں اپنے بھائی کی یادسختی کیساتھ ستارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک بھائی غلام حسن کونامعلوم افراد چھین کرلے گئے اوراب دوسرابھائی منظورجس نے گریجویشن مکمل کی ہے ،اپنی ہوش و حواس کھوچکاہے۔ہم یہ سوچ کربھی خون کے آنسوروتی ہیں کہ آخرہمیں کن گناہوں کی سزاملی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیاکہ پولیس اورانتظامیہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ واضح دعوای کیاگیاکہ غلام حسن کوممکنہ طوراسلحہ برداروں نے جانبحق کیاہے کیونکہ اسکوتلاش کرنے کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں لیکن بقول ان بہنوں کے آج تک سرکاری یاغیر سرکاری طورا±نکی کوئی مددنہیں کی گئی۔انہوں نے مزاحمتی لیڈران سے گلہ کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے بھی ہماری کوئی مددنہیں کی اورنہ ووٹ لینے کیلئے آنے والے لیڈروں کی طرف سے ا±نھیں کوئی راحت پہنچائی گئی تاہم ایک مقامی حقوق انسانی تنظیم کی طرف سے اس لاچارکنبے کوبعض اوقات کچھ مالی معاونت کی جاتی ہے