کشمےر مےں کالے قوا نےن سے پولیس ، بھارتی فورسزاور سیکورٹی ایجنسیاں خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں
سیفٹی ایکٹ ’بے ضابطہ قانون‘، ایمنسٹی نے بھارت کا موازنہ اسرائیل سے کیا
تحریر و ترتیب ، رئےس احمد
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کشمیر سے متعلق اپنے دورہ کے دوران مفصل رپورٹ میں وادی کشمےر میں بھارتی فورسز اور دےگر وردی پوش اہلکاروں کے طرز عمل کا موازنہ اسرائیلی سیکورٹی فورسز کیساتھ کرتے ہوئے کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کو ’بے ضابطہ قانون‘قرار دیکراسے فوری طور ہٹانے ےا منسوخ پر زور دیاہے۔
ایمنسٹی کی یہ 70صفحات پر مشتمل رپورٹ 21 مارچ سرینگر میں جاری کی گئی70صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں جموں کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا گیا ہے’یہ ایک بے ضابطہ قانون ہے جس کوفوراً سے پیشترہٹایا جانا چاہئے‘۔رپورٹ میں قانون کو انتظامی نظربندی کا نظام قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت نے اس سلسلے میں اب تک انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی اپیلوں کو نظر انداز کردیا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس طرح کے سخت قوانین ہٹانے کی ذمہ داری اسرائیل اور مصر کیساتھ ساتھ بھارت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ میں بھارت کا موازنہ اسرائیل اور مصر کیساتھ کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا گیاہے کہ وہ ’انتظامی نظربندی‘ پر روک لگائے اور خاص طور پر بچوں کے بارے میں اس طرح کے اقدام سے گریز کرے۔یہ رپورٹ مقبوضہ کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند600افراد کے کیسوں کا جائزہ لینے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔قانون کے تحت ضلع مجسٹریٹ کسی شخص کو دو سال تک نظر بند کرنے کے احکامات صادر کرسکتا ہے۔ایمنسٹی رپورٹ میں کشمیر میں پولیس کے طریقہ کار کو فلسطین میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے طرز عمل کے برابر قرار دیتے ہوئے بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے پر فوری روک لگائے
اےمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور دیگرمتعلقہ قوانین کو’ متوازی فوجدار ی نظام ‘ اور ’فسطائی قوانین ‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس کالے قانون کے تحت 8 ہزار سے20 ہزار لوگوں کو نظربند کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال جنوری سے ستمبر تک کالے قانون کے تحت 322کشمیریوں کو نظربند کیا گیا۔اس کالے قانون کے ذریعے انتظامیہ کسی بھی شخص کو عدالتوں میں پیش کئے بغیر دو برس تک نظربند رکھ سکتی ہے ۔70صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نظربندوں پر تشدد اور ان سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کی اطلاعات کی غیر جانبدارانہ ، آزاد اور جامع تحقیقات کرانے پر زوردیا گیاہے۔
گذشتہ سال18سے 24مئی تک کشمےر کا 7روزہ دورہ کرنیوالی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ٹیم کی طرف سے یہاں سیاسی اور غیر سیاسی افراد بشمول سیول سوسائٹیز کے ساتھ وابستہ کی گئی ملاقاتوں اور مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات سے اخذ کردہ نتائج پر مبنی مشتمل رپورٹ مےںکہا کہ انتظامیہ اور حکمران ، عدلیہ کے فیصلوں کو نہ صرف دیدہ دلیری سے نظر انداز کر رہی ہے بلکہ عدلیہ خود بھی عوام کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ زمینی سطح پرپولیس اور سکیورٹی ایجنسیاں قانون سے بالاتر محسوس ہورہی ہیں جبکہ پی ایس اے اختیارات کا حامل ضلعی مجسٹریٹ پولیس کے ہاتھوں ’ربڑ کی مہر ‘بن کر رہ گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق نابالغ بچوں کو بھی ان قوانین کے تحت لمبے عرصوں تک جیل کی کال کوٹھریوں میں بند رکھا جارہا ہے او ر انتظامیہ اور حکمران کا طبقہ اس کا لے قانون کو انتقام گیری کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں کیلئے ماہانہ ہدف متعین کئے جاتے رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ہاتھ لگے ایک خفیہ دستاویز کے مطابق10مارچ 2005کو سرینگر کے بھارتی آرمی ہیڈکوارٹر میں منعقد کئے گئے ایک اجلاس میں دو آرمی جنرلوں نے آزادی پسند مسلح تنظیموں کے ہمدردوں کی گرفتاری کے ’ ماہانہ ٹارگٹ‘ مقرر کرنے ہدایت جاری کی
ایمنسٹی انٹر نیشنل نے کہاکہ کئی مقدمات میں مقبوضہ علاقے کی ہائی کورٹ نے نظربندی کے احکامات کو کالعدم قراردیا تاہم انتظامیہ جھوٹے الزامات کے تحت مزیدلوگوں کو دوبارہ نظربندکر کے مسلسل عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ رپورٹ میں بھارت سے کہاکہ وہ کالا قانون منسوخ ، غیر قانونی نظربندیاں ختم اور تشدد کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اور مقبوضہ کشمےر میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں ورکنگ گروپ کے دوروںمیں سہولت فراہم کرے کیونکہ خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں کشمیری مختلف جیلوں میں نظربند ہیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ گزشتہ سال مئی میںکی گئی ریسرچ اور حکومت کے تجزیے اور 2003سے 2010کے درمیان 600سے زائد کشمیریوں کی کالے قانون کے تحت نظربندسے متعلق قانونی دستاویزات پر مبنی ہے
سرینگر میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور متعلقہ قوانین پر تنظیم کی طرف سے تیار کردہ رپورٹ جاری کرنے کیلئے بلائی گئی پریس کانفرنس میں تنظیم کے سینئرکارکن بکرم جیت باترا ،مدھو ملہوترہ اوررمیش گوپالا کرشنن پر مشتملوفد نے رپورٹ کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی صریحی خلاف ورزی ہے اور بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بھی اس قانون کو ایک ’لا قانون قانون ‘ قرار دیا ہے۔ لیکن جموں و کشمیر میں اس قانون کے بے ہنگم اطلاق سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمےر کی انتظا مےہ انسانی حقوق سے بے پروا ہوکر من مانے طریقے سے اس قانون کا استعمال کر رہی ہے۔باترا کے مطابق رپورٹ میں نہ صرف اس قانون کے نام پر لاقانونیت کو عیاں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی دکھا یا گیا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی حکومت کس طرح سے قانون کے بے جا استعمال کرتے ہوئے مخالف نظرایات کے حامل سیاسی قائدین،کارکنوں او ر مسلح تنظیموں کے اراکین و ہمدردوں کو بغیر کسی قانونی چارہ جوئی وثبوت کے لمبے عرصوں تک حرا ست میں رکھی ہے تاکہ ان کی سرگرمیوں پر روک لگائی جاسکے۔ بکرم جیت کے مطابق رپورٹ کے مرتب کرنے کیلئے سال 2003 سے 2010تک لاگو کئے 600 ُؓ ُ پبلک سےفٹی اےکٹ (پی ایس اے) کیسوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پچھلی دو دہائیوں میں 8000سے20000افراد کو اس قانون کے تحت زیر حراست رکھا گیا ہے جبکہ بھارتی ہوم ڈپارٹمنٹ کے مطابق سال2010میں ماہ جنوری سے ستمبر تک322افراد کو اس قانون کے تحت نظر بند کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق پبلک سیفٹی ایکٹ قانون کے بنیادی اصول یعنی principle of legality کی نفی کرتا ہے جس کے مطابق جب کسی قانون کی رو سے کوئی چیز ناجائز ٹھہرائی جاتی ہے تو وہ آسانی سے پہچانی جائی۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے سیکشن 8(1) کے تحت کسی بھی شخص کو اس کالے قا نوںپی ایس اے کے تحت نظر بند کیا جا سکتا ہے اگر” وہ مملکت کی سکیورٹی کیلئے کسی بھی قسم کا خطرہ ہو “ لیکن اس سیکشن میں’ ریاست کی سیکورٹی کی اصطلاح‘کو مبہم رکھا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قانون کے اصل مسودہ میں اس اصطلاح کی تفصیل موجود تھی لیکن1988کی ایک ترمیم میں اس وضاحت کو ہٹا دیا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق اسی طرح پی ایس اے کے سیکشن 8(3) عوامی نظم و ضبط میں رخنہ ڈالنے کے الزام کے تحت کسی فرد کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ لیکن مسودے میں عوامی نظم و ضبط کی دی گئی تفاصیل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اتنی وسیع ہے کہ کہ ہر فرد کو اس قانون کے تحت حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ پی ایس اے کے تحت گرفتار شد گان کو فوراً ان کی گرفتاری کی وجوہات سے بھی آگاہ نہیں کیا جاتا ،جو بین الاقوامی معاہدہ برائے عوامی و سیاسی حقوق کی صریحی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے نظربند افراد کو قانونی امداد بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ رپورٹ کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے قانون اور خصوصاً پی ا یس اے کی ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ اسکے تحت مسلمہ طورنا بالغ افراد کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جموں وکشمیر میں(Juvenile justice act of1987) میں ترمیم نہیں کی گئی ہے اوراس قانون کی رو سے16سال کی عمر کے افراد کو بالغ تصور کیا جاتا ہے حالانکہ بھارت میں ’ نابالغ انصاف ایکٹ‘(juvenile justice act of 1986 ) میں ترمیم کر کے 18سال کی عمر حد پار کرنے والے افراد کو ہی بالغ تصور کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ عالمی اور بھارت کے اپنے قوانین کے سراسر خلاف ہے اور یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ پی ایس اے کا کالاقانون بین الاقوامی انسانی حقوق کے اقدار سے متصادم ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی ایس اے کے ذریعہ دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ جن میں زیر حراست تشدد اور غیر انسانی سلوک سر فہرست ہے۔ رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں افراد کو غیر قانونی طور پر تفتیش کیلئے حراست میں لیا جاتا ہے اور دوران حراست ان کو کوئی قانونی امداد فراہم نہیںہوتی۔ اکثر وبیشتر ان افراد کو ایسے مقامات پر رازدارانہ طور پر زیر حراست رکھا جاتا ہے جہاں ان تک ان کے اہل و عیال کی رسائی نہیں ہو پاتی۔اس طریقہ کار سے زیر حراست افراد تشدد کاشکار ہونے کے متواتر خطرے میں رہتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مجوزہ فوجداری قانون کے تحت اقبالی بیانات کو ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن پی ایس کے تحت اقبالی بیانات کو ثبوت تسلیم کی جا تا ہے جس سے پولیس اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کو زیر حراست ٹارچر کرنے کا موقع فراہم ہوجاتا ہے۔باترا کے مطابق زیر جائزہ 600میں سے55کیسوں میں اقبالی بیانات کی بنیاد پر ہی افراد پرپی ایس اے لاگو کیا گیا اور ہمارا ماننا ہے کہ ان میں سے اکثر کیسوں میں تشدد کے ذریعہ ہی ان افراد سے یہ اقبالی بیانات لئے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ غیرانسانی تو ہے ہی لیکن اس کا اطلاق اس سے بھی گیا گذرا ہے۔پی ایس اے کے تحت نظربند افراد کو فراہم کئے گئے گرفتاری کے گراونڈز(ڈوزیئر) عام طور پر اتنے مبہم ہوتے ہیں کہ خودزیرحراست فرد کو بھی صاف طور پر پتہ نہیں ہوتا کہ اسے کیوں گرفتار کیا گیا الزامات کے بارے میں کسی بھی قسم کاکوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاتا جس سے ملزم اپنا کیس تیار کر پاتے اور پولیس کی طرف سے زیرحراست افراد پر باضابطہ عدالت میں الزام ثابت کرنیکی معمولی سی کوشش بھی نہیں ہوتی۔ باترا نے کہاکہ 77کیسوں میں اس مبہم انداز میں گراونڈ بنائے گئے تھے کہ خود زیرحراست افراد کو بھی پتہ نہیں تھا کہ ان کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی ایس اے کا اختیار ضلعی مجسٹریٹ کے ہاتھوں میں دئے جانے کا مقصد پولیس کے اختیارات پر روک لگانا تھا لیکن صاف ظاہر ہوتا ہے ضلعی مجسٹریٹ پولیس کے ہاتھوں میںصرف ایک ربڑ کی مہر بن کر رہ گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پولیس و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مل کر ایک نظام کے تحت کام کر رہے ہیں جس میں ماہانہ طور پر لوگوں کی ایک متعین تعداد کو گرفتار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح جب پولیس کو ایک متعین تعداد کو گرفتار کرنے کا کام سونپا جاتا ہے تو ان کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ بنے بنائے الزامات کے تحت لوگوں کو گرفتار کرے۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمےر کی انتظامےہ کالے قانوں پی ایس اے کاا ستعمال آزادی پسند قیادت کی پہلی اور دوسری صف کو زیر حراست رکھنے کیلئے کر رہی ہے تاکہ ان کی آواز کو دبایا جاسکے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق انتظامےہ کی طرف سے پی ایس اے کا قانون انتقام گیری کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ عوامی مظاہروں میں شر کت کرنے والے نوجوانوں اور بچوں کو کالے قانوں پبلک سےفٹی اےکٹ) پی ایس اے ( کے تحت بند کرنا اسی بات کا ثبوت ہے۔ انتظامےہ اور administration کی طرف سے ان افراد کیخلاف عدالت میں الزامات ثابت کرنے اور انہیں سزا دلوانے کی کوئی کوشش نہیں ہوتی بلکہ اس کالے قانوں پی ایس اے کے تحت ان کو لمبے عرصے تک زیر حراست رکھ کرانہیں سزا دی جاتی ہے
ایمنسٹی کی رپورٹ نے کہاکہ جن کیسوں کی ہم نے جانچ کی ،ان سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموں و کشمیر کی انتظامےہ پی ایس اے اور ایسے د یگر کالے قوانین کے ذریعہ ایک متوازی کریمنل (فوجداری)جسٹس سسٹم کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ کریمنل جسٹس سسٹم میں موجودانسانی حقوق کے تحفظات کوبائی پاس کیا جاسکے۔ایک اور پہلو جو رپورٹ میں اجاگر کیا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے ثبوت پیش کرنے اور الزامات ثابت کرنے سے بچنے کیلئے پولیس پی ایس اے کو معمول کی قانونی کاروائی کیساتھ ساتھ بھی استعمال کرتی ہے اور جب کسی فرد کو عدالت ضمانت یا کسی اور طریقے سے رہا کر دیتی ہے تو ان کو پی ایس اے کے تحت دوبارہ حراست میں رکھا جاتا ہے۔جبکہ پی ایس اے کے تحت ان کو ایسا کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں اور صرف الزام لگا کر بھی وہ کسی آدمی کو قید کر سکتے ہیں۔ایک اور دلچسپ خلاصے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اگر چہ عدلیہ کے سامنے آرمز ایکٹ کے تحت جرم ثابت ہونے کی شرح 66فیصد سے زیادہ ہے لیکن جموں و کشمیر میںیہ شرح 0.5فیصد ہے کیونکہ پولیس اہلکار عدالت کے سامنے جرم کو ثابت کرنے سے کتراتے ہوئے پی ایس اے کی مدد سے ہی اپنا کام چلاتی ہے۔باترا نے کہاکہ ہماری ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ کئی افراد کو ان پر لگائے گئے الزامات میں ضمانت مل جاتی ہے یا عدالت کی طرف سے بری کیا جاتا ہے لیکن ان کی رہائی ممکن نہیں ہو پاتی کیونکہ پی ایس اے کے تحت ان کو حراست میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ کیسوں میںتو ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدالت سے بری ہوجانے کے بعد افراد پر پی ایس اے عائد کر دیا جاتا ہے جس سے عدالت کے فیصلوں کا سیدھے طور مذاق اڑایا جاتا ہے۔پی ایس اے کے باربار اطلاق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جموں وکشمیر کی انتظامےہ کی طرف سے عدلیہ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جیل حکام ، ہوم ڈیپارٹمنٹ اور پولیس کے مشترکہ نظام کے تحت کئی افراد کو جیل سے رہائی کے بعد دروازے پر پھر سے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ایمنسٹی نے کہاکہ جموں وکشمیر مےں اس طرح کالے قانون کے بیجا استعمال میں اسلئے کامیاب ہوپاتی ہے کیونکہ عدالت عالیہ حکومت اور وردہ پوش اھلکاروں کو اس کیلئے جوابدہ نہیں بنارہی ہے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ پولیس ، بھارتی فورسزاور سیکورٹی ایجنسیاں خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے مشتمل کشمیر رپورٹ میں کی گئی سفارشات کے بارے ایمنسٹی اراکین نے بتایا ” پی ایس اے کو منسوخ کیا جائے ، جموں وکشمیر میں انتظامی حراست کے نظام کا خاتمہ کیا جائے ، مجرمانہ اعمال کا ارتکاب کرنے والے مشتبہ افراد کے خلاف مسلمہ فوجداری الزامات کا فرد جرم عائد کیا جائے اور انہیں کھلی عدالت میں تمام مدافعات کے ساتھ باانصاف مقدمہ فراہم کیا جائے“۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے ” سرکار قانون کی بالادستی کے بارے میں اپنے عہد کو ثابت کرنے کی خاطرغیرقانونی حراست اور قیدتنہائی ختم کرے اور گرفتار شدہ شخص کی مجسٹریٹ کے سامنے بروقت پیشی، اقارب کے ساتھ رابطے ، قانونی مشورے ، طبی معائینے اور مسلمہ مقامات پر آنے والے مقدمے کی سماعت کو یقینی بنانے کیلئے فی الفور انتظامات کریں “۔ ایمنسٹی رپورٹ میں لکھا گیا ہے مزید یہ کہ بھارت اور جموں وکشمیر کی حکومتیں ”گرفتار شدگان اور ان کے خاندانوں کے خلاف لگائے گئے تشدد کے تمام الزامات ،جن میں ایذا رسانی اور دیگر بدسلوکیاں ، ملاقات اور مناسب طبی معالجے کی ممانعت شامل ہیں ،کے بارے میں ایک آزادانہ ، غیر جانبدارانہ اور جامع تحقیق کر لے اور اس کو شائع کرے اور ان میں سے ملوث افراد کا محاسبہ کیا جائے “۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارتی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ” اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں کے دوروں کو یقینی بناےا جائے ، جن میں خاص طور پر اقوام متحدہ کے رپورٹر برائے ایذا رسانی اور ورکنگ گروپ برائے غیر قانونی گرفتاری شامل ہو “۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ جس طرح اسرائیل فلسطین میں لوگوں کی آواز کو طاقت کے بل بوتے دبا رہا ہے ،اسی طرح بھارت بھی متنازعہ علاقہ کشمیر کے عوام کی آواز کو فوجی جارحےت اور طاقت سے دبارہا ہے۔
حریت کانفرنس کے رہنما ﺅں سےد علی گےلانی ، میرواعظ عمر فاروق ، محمد یاسین ملک ، کشمےر بار اےسوسےشن، انسانی حقوق سے متاثرہ خانداں اور دےگر سول سوسائٹی افراد سے ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ذمہ داروں سے ملاقاتوں کے بعد کہا کہ اس طرح کی رپورٹوں سے دنیا کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے کشمےری عوام کس طرح جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک کے قید اور اذیتیں مےں پھنسے ہوئے ہےں۔
وقت آگیا ہے کہ علاقے کے دانشور ، وکلاء، اور سنجیدہ فکر طبقہ طبقہ کھل کر سامنے آئے اور بھارت کو کشمےرےوں پرظلم تشدد جبر زیادتیوں اور بے دریغ گرفتاریوں اور ”کالے قوانین “کے خاتمے کے لئے دباﺅڈالے کیونکہ رےاستی دہشت گردی اور جاری انسانی حقوق پامالےوں سے کشمےرےوں کا قتل عام جاری رہےگا۔ کشمےری عوام عالمی برادری کوےہ بھی ےاد دلا نا چا ہتے ہےں کہ کشمےر کی متنازعہ حثےےت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سےکورٹی کو نسل مےں بھارت کی طرف سے پےش کردہ Documentsابھی تک مو جود ہےں ۔اور تنازعہ کشمےر کے حوالے سے امرےکہ کے موجودہ صدر باراک اوباما نے اپنی الےکشنی مہم کے دوران عندےہ دےا تھا کہ وہ تنازعہ کشمےر کے حل کے امکانات تلاش کر نے کےلئے بل کلنٹن صاحب کو خصوصی اےلچی کے طور پر نامزد کر ےنگے اسکے علاوہ صدر اوبا ما نے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارت مےں ہی کہا تھا کہ Kashmir is a Long Pending Disputeاسےطرح سابق امرےکی صدر بل کلنٹن نے کشمےر کو نےو کلےر فلش پونٹ قرار دےا تھا ۔ کشمےر ی عوام چا ہتے ہےں کہ دنےا کے ممالک عموماًاور اقوام متحدہ ا،مرےکہ ، برطانےہ اور ےورپی ےو نےن بھارت پر مسئلہ کشمےر کا سےاسی حل تلاش کر نے کےلئے اپنا سےاسی اثر رسوخ استعمال کر ےں تاکہ علاقے مےں امن قائم ہوسکے۔