مقبوضہ کشمےر مےں لاک ڈاﺅن سے غےر ےقےنی صورتحال کے دوران دورہ کرنے والی بھارتی خواتےن تنظےموں کی رہنماﺅں وانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بھارت کی سول سوسائٹی اور انسانی حقو ق کے تعلق پانچ خواتین نے مسلم اکثرےتی وادی کشمےر کی سنگےن صورتحال کے بارے مےں حقائق پر مبنی اےک تفصےلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہارکیا ۔
ان خواتین میں نیشنل فیڈریشن اور انڈین ویمن کی اینی راجہ، کنولجیت کور اور پنکھڑی ظہیر کے ساتھ پرگتی شیل مہیلا سنگھٹن (ترقی پسند خواتین تنظیم) دہلی کی پونم کوشک اور مسلم ویمن فورم کی سیدہ حمید شامل ہیںنے 17 ستمبر سے 21 ستمبر کے دوران کشمیر کا دورہ کیا اور انھوں نے کہا کہ انھوں نے زندگی کے متاشرہ خا ندان اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کیا
ان خواتےن رہنماﺅں نے دہلی پرےس کلب مےں ۴۲ستمبر کو صحافےوںکے سامنے اپنے مشاہدات بےان کرتے ہوئے کہا کہ وادی کشمےر پہنچتے ہی انہےں محسوس ہوا کہ جےسے وہ ظلم کے بادلوں کے سائے مےں چل رہی ہےں۔ انہوں نے مصدقہ واقعات بےان کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 51روز کے دوران جموںوکشمےر مےں تقرےباً 13ہزار نوجوان گرفتار و غائب کردےے گئے ہےں جنھیں کشمیر سے بہت دور بھارت کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے۔
شائع رپور ٹ میں بتایا کہ 14 سال سے 25 سال تک کے 13 ہزار بچے غائب ہیں اور ان کے والدین کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے بچے کون سی جیل میں کہاں قید ہیں اور انھیں کیوں اٹھایا گیا ہے۔'انہوں نے کہاکہ بھارتی پولیس ، پیراملڑی و افواج نوجوانوں کے ساتھ اےسا سلوک کررہی ہے جےسے وہ ان سے نفرت کرتی ہے اور جب والدےن اپنے بچوں کی تلاش مےں جاتے ہےں تو انہےں 20ہزار سے 60ہزار روپے کا خرچہ اٹھانا پڑتا ہے
انسانی حقوق کی خواتین علمبرداروں نے کہا کہ کشمیر کی ہر ایک خاتون کے پاس کوئی نہ کوئی افسوسناک کہانی سنانے کے لیے ہے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے بعد ان لوگوں نے کمشیر میں 17 گاو¿ں کا دورہ کیا اور وہاں طلبہ، اساتذہ، حکومتی اہلکار،ملازمیں، ڈاکٹروں، کسانوں، خاتون خانہ، نوجوان لڑکیوں، ماہی گیروں، مزدوروں، کشمیر پولیس اور یہاں تک کہ چند بھارتی فوجیوں سے بھی بات کی۔
انسانی حقوق کی علمبردار ٹیم نے 'ویمنز وائس: فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آن کشمیر' جاری رپورٹ میں کشمیر سے بھارتی فوج اور پےراملٹری فورسز کے فوری انخلاء، گرفتار افراد کے خلاف درج تمام مقدمات کے خاتمے اور ان کے بارے مےں معلومات کی فراہمی،بڑے پےمانے پر پر تشدد کارروائےوں کی تحقےقات اور جاں بحق ہونے والوں کے لواحقےن کے لےے معاوضے کا مطالبہ کےا ہے۔
انھوں نے انٹرنےٹ اور موبائل فون سمےت تمام مواصلاتی ذرائع کی بحالی ، دفعہ 370اور35A کو دوبارہ نافذ کرنے ، کشمےرےوں کے مستقبل کے حوالے سے فےصلہ سازی مےں ان سے مذاکرات اور بھارتی فوج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تحقےقات کا بھی مطالبہ کےا ہے
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں شامل ڈاکٹر سعےدہ حمےد اور اےنی راجہ نے کہاکہ بہت تحقےق کے بعدہم کہہ رہی ہےں کہ گزشتہ 51روز کے دوران جموںوکشمےر مےں تقرےباً 13ہزار نوجوان غائب ہوگئے۔انہوں نے کہاکہ ہم سرےنگر سمےت شوپےان ، پلوامہ اور بانڈی پورہ کے بہت سے دےہات مےں گئےں۔ انہوں نے کہاکہ اےک خاتون نے بتاےا کہ بھارتی فوج جان بوجھ کر نوجوانوںکو مظالم کا نشانہ بناتی ہے۔ جب والدےن اپنے بچوں کی تلاش مےں جاتے ہےں تو انہےں 20ہزار سے 60ہزار روپے کا خرچہ اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج مےں کشمےری نوجوانوں کے لےے نفرت صاف نظر آتی ہے جب بھارتی فورسزدروازہ کھٹکھٹاتی ہےں تو کوئی بزرگ دروازہ کھولنے کے لےے جاتا ہے اور ہم دعا کرتے ہےں کہ وہ محفوظ رہے لےکن فورسز اہلکار عمرکا لحاظ کئے بغےر ہی اندھا دھند تھپڑوں کی بارش کرتے ہےں
ڈاکٹر سعےدہ حمےد نے کہا کہ نوجوان لڑکیوں نے بتایا کہ اب انھیں فوجی ہراساں کرتے ہیں ان کا نقاب، پردہ ہٹا دیتے ہیں
وہا ں لوگوں نے کہا کہ جہاں تمام کشمیری اہم رہنما جیل میں بند ہیں وہیں بی جے پی کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو جلسے یا میٹنگ کی اجازت نہیں ہے۔
سیدہ حمید نے بتایا کہ انسانیت کراہ رہی ہے اور ایک حسین ریاست 'شہر خموشاں میں تبدیل ہو گئی ہے۔' انھوں نے مزید کہا کہ 'وہاں کے لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم کون ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور کون ہمدرد ہیں، یعنی وہ ہر بات سے بے خبر ہیں۔'
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے رپورٹ مےں کہا کہ نماز مغرب کے بعد رات آٹھ بجے وادی کشمیر کی تمام روشنےاں گل ہوجاتی ہےں اور کرفےو کی خلاف ورزی پر بھارتی فورسز غصے مےں آکر بلا لحاظ عمر لوگوں کو اٹھا کر لے جاتی ہےں۔ اےک اور خاتون نے کہا کہ جب کتے بھونکتے ہےں تو ہم سمجھ جاتے ہےں کہ باہر فوج ہے۔ اےک شخص نے کہاکہ مےںروشنی کے لےے اپنا فون بھی نہےں کھول سکتاتاکہ مےں اپنی چھوٹی بچی کو واش روم لے جاسکوں۔
اینی راجہ نے کہا کہ ان کی ٹیم محصوری کے 43 ویں دن پہنچی تھی اور اس کے بعد سے مزید سات دن گزر چکے ہیں۔ تمام دکانیں، ہوٹل، سکول،کالج، تعلیمی ادارے، یونیورسٹی سب بند ہے۔ 'وہاں انسانی زندگی المناک ، دردناک ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت 'کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے نے کشمیروں کو متحد کر دیا ہے اور ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ ان کے لیے آخری دھچکہ ہے۔'
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں شامل اینی راجہ نے میڈیا سے کہا: 'ہم نے جس خاتون سے بھی ملاقات کی اس کے پاس کوئی مایوس کن کہانی کہنے کے لیے ہے۔ ان کے بچوں کو فوج اٹھا رہی ہے۔ جب وہ ان کے بارے میں جاننے کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ ہیڈ کوارٹر جا کر فہرست دیکھو جہاں وہ پتھر پھینکنے والوں کی فہرست دیکھتے ہیں جنھیں آگرہ، جودھ پور، امبیدکر نگر، جھجھر کی جیلوں میں رکھا گیا۔'
اینی راجہ نے کہا کہ 'کہ یہ نسل کشی کا ہندوستانی طریقہ ہے اور فوج اس سے دامن نہیں بچا سکتی۔
اینی راجہ نے کہا کہ 'فوج نوجوانوں پر جھپٹا مارتی ہے، یوں لگتاہے کہ انھیں ان کی صورت سے ہی نفرت ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کو بچانے جاتے ہیں تو انھیں 20 ہزار سے 60 ہزار کے درمیان رقم جمع کرانے کے لیے کہا جاتا ہے۔'
رپورٹ مےں کہاگےا کہ سڑکوں پر کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہےں ہے اور اےمبولےنسز تک رسائی نہ ہونے کے سبب بہت سی خواتےن دباﺅ اور خوف کے باعث وقت سے پہلے ہی بچوں کو جنم دےتی ہےں۔ اےک لڑکی نے خواتےن ٹےم کو بتاےا کہ لگتا ہے کہ بھارتی حکومت ہمےں کھڑا کرکے کہہ رہی ہے کہ اےک ساتھ بولو۔ انہوںنے کہاکہ بھارتی فوج نے ہمےں نقاب اتارنے کے لےے کہااور ہمےں ہراساں کےا ۔ رپورٹ مےں کہاگےا کہ کسی بھی صورت مےں حالات نارمل نہےں ہےں اور جو لوگ ےہ دعویٰ کرتے ہےں وہ جھوٹ بولتے ہےں اور حقائق کو مسخ کرتے ہےں
وفد میں ایک خاتوں نے کہا کہ گھر گھر میں گرفتاریا ں ہوئی ہیں اور کشمیر میں صرف خوف کا ماحول پھیلاہو اہے عورتین گھوم نہیں سکتیں ہیں کیونکہ انکو خوف ہے فوج سے اور روزمرہ زندگی ختم ہوگئی ہے لوکل پولیس سے فوج نے ہتھیار چھین لئے ہیں اور فوج پولیس کا کام کررہی ہے
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں شامل ایک انسانی حقوق کی رضاکار پونم کوشک نے کہا کہ لوگ اپنے بچوں کو چھپانے لگے ہیں۔ 'جب فوج دروازے پر دستک دیتی ہے تو گھر کا بوڑھا اس امید پر دروازہ کھولتا ہے کہ شاید فوج کو ان پر رحم آ جائے۔'
ان لوگوں نے بتایا کہ کس طرح کشمیر وہاں کے شہریوں کو تنگ کر رہی ہے۔ 'کشمیری عام طور پر تین چار مہینے کا راشن رکھتے ہیں لیکن جب
فوجی ان کے گھر آتے ہیں تو وہ ان پر کیروسین تیل انڈیل دیتے ہیں۔
وفد میں ایک اور خاتوں نے کہا کہ آ ر ایس ایس ایڈیلوجی سرکار کو چلانے والا ہے جموں و کشمیر کو کیوں ٹارگٹ گیا ہے