کشمیر میں -08 اپریل کو سرکردہ اسلامی سکالر، سماجی لیڈراور جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا شوکت احمد شاہ جس نے نے گزشتہ 22برس سے جدوجہد آزادی کشمیر میں متحرک کردار ادا کیا کو سرینگرکے علاقے مائسمہ میں مسجد کے گےٹ کے سامنے ایک بم دھماکے میںشہید کےاگےاشہید دینی رہنماء2009ءمیں دو قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے تھے ۔ حریت رہنماﺅںنے ان حملوں کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی قراردیا تھا ۔
بعد ازاں حریت رہنماوں مےرواعظ عمر فاروق ،محمد یاسین ملک سمیت دیگر حریت رہنماﺅں نے ہزاروں افراد کے ہمراہ لال چوک سرینگر میں مولانا شوکت احمد شاہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی ۔ جنازہ کے بعد لوگوںنے بھارت مخالف اور جدوجہد آزدی کے حق میں فلک شگاف نعرے بھی لگائے گئے۔ سید علی گیلانی جوکہ گھر میں نظربند تھے کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی ۔
خانہ کعبہ میںامام کعبہ شیخ عبدالرحمان بن عبدالعزیز کی امامت میں ہزاروں لوگوں نے اپرےل 15کو نماز جمعہ کے بعدمولانا شوکت احمد شہد کی غائبانہ نماز جنازہ اد ا کیواضع رہے کہ مولانا شوکت احمد نے گزشہ ماہ نئی دلی میں امام کعبہ سے ملاقات کی تھی۔ مولانا نے انہیں مقبوضہ کشمیر کے دورے کی دعوت دی تھی جبکہ کچھ کشمیری تحائف بھی پیش کیے تھے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تحمےنہ جنجوعہ نے مولانا شوکت کی قتل کی شدےد مذمت کی-سید علی گیلانی ، مےرواعظ عمر فاروق ہائیکورٹ بار ایسو سی ایشن، متحدہ جہاد کونسل اور حز ب المجاہدےںسمیت دیگر رہنماﺅں اور پارٹےوں نے مولانا شوکت احمد شاہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک وحشیانہ حرکت اور دہشت گردی کی ایک کارروائی قراردیا جس کا مقصد کشمیریوں کے اتحاد کو توڑنا ہے جبکہ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں معروف کشمیری دینی عالم اور جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا شوکت احمدشاہ کے قتل کے خلاف 9 اور 10 اپےل کو مسلسل مکمل ہڑتال کی گئی
مولانا شوکت احمد شاہ کم گو، نرم مزاج اور شیرین گفتار اپنی لمبی شرعی داڑھی کی وجہ سے ہجوم میں دور سے پہچانے جاتے تھے۔ 2001میں وہ پہلی مرتبہ جمعیت اہلحدیث کے صدر منتخب ہوئے اور وہ تواتر اس عہدے کیلئے منتخب ہوتے آئے۔ موصوف سر ےنگرلال بازار کے ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی دینی تعلیم و تربیت جمعیت کے سابق صدر مولانا نور الدین،جو ا±ن کے ماموںبھی تھے، سے حاصل کی۔مرحوم جمعیت کیساتھ ہمہ وقتی وابستگی سے پہلے شالوں کی تجارت کرتے تھے اور کافی عرصہ تک کاروبار کے سلسلہ میں بھارتی شہرکلکتہ جاتے رہے۔1989ء میں انہیں جمعیت کا ناظم تبلیغ مقرر کیاگیا۔متواتر گیارہ برس تک جمعیت کا صدر رہنے کی وجہ سے اس تنظیم کے پروگرام اور پالیسیوں کو ایک تواتر ملا، جس کی وجہ سے جمعیت نے وادی کے طول و عرض میں مقامی سطح پر یونٹ منظم کرکے پارٹی رکنیت میں تعداد بڑائی۔ا±نہوں نے جمعیت کی سرگرمیوں بڑاتے ہوئے 2004میں مشہور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو وادی کشمےر مدعوکر کے کئی روح پرور مجالس کا اہتمام کیا۔ مقوضہ کشمےر میں فی الوقت 814 مساجد جمعیت سے منسلک ہیں،مولانا شوکت کی انتھک کوششوں اور محنت سے شہےد عوامی اور فلاحی کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھے اور ان کے عہدہ صدارت میں جمعیت بلڈنگ بربرشاہ میں ایک ڈائگناسٹک سنٹر قائم کیاگیا، جہاںمفت اہم طبی ٹسٹوں کے اہتمام سے غرباء کو کافی سہولیات میسر ہوئےں اور کشمیر میں ایک بین الاقوامی سطح کی ٹرانس ورلڈاسلامی یونیورسٹی قائم کی گئی۔ خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے ایک مرکز قا ئم کرکے86لڑکیاں زےر تعلےم ہےں
مولانا شوکت کاکشمیر کی تحریک مزاحمت سے قریبی تعلق رہاہے اوروہ سیاسی طورجموںوکشمےر لبریشن فرنٹ چیئرمین محمدیاسین ملک کے بہت قریب ساتھی تھے اور ان کے آزادی سے متعلق ہر پروگرام میں پیش پیش ہوتے تھے۔وہ کئی مرتبہ جیل بھی گئے اور2008میں انہیں کشمےرےوں کے زمےں کو غےر کشمےرےوں کے سپرد کرنے کے خلاف عوامی ایجی ٹیشن کے دوران یاسین ملک کے ہمراہ حاجن میںگرفتار کر کے کالے قانوں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند کیاگیا۔ 2007 میں بربر شاہ سر ےنگرکے قریب ان کی کارپر نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کےا جبکہ2008میں ان کے گھر پر بھی گرینیڈ حملہ کیاگیا ، جس میں ان کے اہل خانہ بال بال بچ گئے۔ شہےدکے لواحقین میں ان کے والدین کے علاوہ اہلیہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔
مولانا کے قتل سے کشمےر کی جاری آزادی کی تحرےک کو اےک سخت نقصان پہنچا کر ایک خلا پیدا کردےا میرواعظ مولوی محمدفاروق ، خواجہ عبد الغنی لون ، اےس حمےد، ڈا کٹر غلام قادر وانی، ڈا کٹر گورو، پروفےسر وانی، شےخ عبد العزےز، مولانا شوکت شاہ سمےت دےگر جےسے رہنماوئں ، دانشوروںاور کارکنوں سے گزشتہ 22برس کے دوران کشمیریوں کو قیادت سے محروم کےاگےا حریت رہنماﺅں، دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو شہےد کرکے جاری کشمےرےوں کی حق خودارادےت کی جدجہد کو کمزور کردےا گےا۔اب وقت آگےاکہ کشمیری قےادت ان مذموم سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے متحدہوکر کشمیریوں کی حق پر مبنی جد وجہد کو سبوتاژ کرنے سے بچانے کے لئے حکمت عملی ترتےب دےں تاکہ قتل کے مجرمین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے بھارت کے ہٹ دھرمانہ اور جارحانہ پالےسوں کی وجہ سے کشمےر مےں تشدد ، قتل و گارتگری ، انتشار، بداعتمادی اور انسانی حقوق کی بدترےں پامالےوں کا سلسلہ جاری رکھکر کشمےر کواےک فوجی چھاونی مےں تبدےل کےاگےاہے
ادھر انسانی حقوق پامالےوںکے بارے مےں امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2010میں بھی کشمےر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجی، پولیس اور بھارتی حکومت کے آلہ کاروں کے ہاتھوں جموںوکشمیر میں قتل عام اور ظلم و تشدد سمیت بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیںاور لوگوں کے جبری اور ماورائے عدالت قتل کی لاتعداد اطلاعات ملی ہیں
کشمیر میں کٹھ پتلی وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی31مارچ کوا عتراف کیا ہے کہ 1990ءسے2011 اپرےل تک 341بے گناہ کشمیریوں کودوران حراست کے قتل کیا گیا ۔ عمر عبداللہ نے یہ اعتراف نام نہاد اسمبلی میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کیا ۔ جبکہ 4 اپرےل کو سرکاری دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمےر میں گزشتہ سال انتفادہ کے دوران 57حریت کارکنوں کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارکیا گیا ۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ اس عرصے کے دوران 161بے گناہ کشمیری نوجوانوں پر بھی کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا گیا ۔
)س احمد)Raies Ahmad